Tuesday 29 August 2017

جنسی تعلیم ایک مکمل مضمون

باب اول                        جنسی تعلیم ایک مکمل مضمون

جماع ایک ایسا فعل ہے جو نہ صرف جسم کو راحت اور سکون بخشتاہے بلکہ اس کے بعد انسانی جسم پر یاک مخصوس دباو بحی ہوتا ہے ۔یہ اثرکیاہے؟ اور کویں ہے؟ اس فعل کی حد اعتدال کیاہے؟ اور کثرت مباشرت کی حد کہاں سےآغآز کرتی ہے؟ ان سب امور پر بحث سے قبل جس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مباشرت کا طبی طبعی مدعا کیا ہے؟ قدرت معاملہ نے ہر زی حیتا کے اندر یہ خواہش کیوں رکھی ہے؟ اس سے قدرت معاملہ کا مدعا کیاہے؟ عام فہم یہ ہے کہ کہ مجامعت کا فطری مدعا حصول اولاد ہے کہ اس سے کاروبار حیات جاری و ساری رہے اور نظام عاملم قائم و دائم رہے۔ اسی بناء پر نر کے عضو مخصوص کو آلہ تناسل اور مادہ کے عضو مخصوص کو انداز نہانی کہاگیا۔
دنیا کا ہر مذہب اور لا مذہب قوتیں شادی کو  بہتر مانتے ہیں  اور جنسی  ملاپ کے لئے ازدواج کے ہونے پر زور ہے۔ اسی بناء  پر مردو عورت کے جنسی تعلقات  بغیر شرعی  قیود قانونی ازدواج اور        سماجی بندھنوں کے ناجائز قرار دیا جاتاہے ۔ اور اننن +         سب کے بغیر غیر اخلاقی اور مزموم خیال کئے جاتےہیں۔ اور دنیا کے اکثر معاشروں میں یہ قابل تعزیر ہے  ۔ یعنی شرع  قانون  اور سماج  کے باونڈرئز کے اندر رہ کر جو کچھ احسن ہے اور اگر ان پابندیوں کو توڑ  دیا جائے تو معیوب ہو جاتا ہے ۔مگر اس سب سے اس فعل  کے مذموم ہونے کا شائبہ نہٰن صرف اس کو اختیار کرنے کے ذرائع اس 
http://ummulshifa.com/کو معیوب یا احسن کروا دیتے ہیں ۔

     جنسی تعلیم ایک مکمل مضمون

  اگر یہ  نظر بغور ہم اس کا ئنات  کا مطالعہ کریں تو اس میں ایک تسلسل دکھائی  دیتا ہے  ایک زنجیر ہے  جس کی  کڑی سے کڑی جڑی ہوئی ہے اس کے سرے پر غیر ذی  روھ جمادات ہیں ۔ ان کے قیام ودوام کے لئے  کسی تناسل یااز دوراج کی ضرورت نہیں۔ اس سے اگلا اسٹیج  زی حیات و نبادات وحیوانات سے کا ہے۔ ان میں بھی ان گنت ایسے مخلوق ہے جس کے سلسلہ  حیات کے لئے  تناسل  کو قدرت کا ملہ نے ضروری نہیں سمجھا ۔ سلسلہ تناسل اور ازدواج صرف اور  اس ذی حیات مخلوق  میں پایا جاتا  ہے جن کو مراتب  مین شرف حآ صل ہے ۔ یہ بھی مشاہدے  کا حصہ  ہے کہ  سلسلہ حیات کو قا ئم رکھنے  کے لئے قا نو ن تناسل عالمگیرت  کا حامل نہیں ہے۔اب ایک  نظر حیات اعلی پر ڈالیں تو اس میں بھی ہم کو حیرت انگیز مسلسل زنجیر دکھائی دیتی ہے ۔ اس زنجیر کی کڑیاں تناسل کے لھاظ سے بتدریج  بڑھتی اور پیچیدہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔  ایک کڑی دوسری میں الجج کر دوسری بنتی ہے۔ اور یو ں یہ اضافہ بتدیج بڑھتا  چلا جاتاہے  ۔ بعض مخلوق ایسی ہے، کہ  نر و مادہ  کی تمیز نہیں ایک ہی مخلوق  ایک وقت میں مادہ کا کا م بحی کر رہی ہوتی ہے تو دوسرے  وقت میں وہ نر کے ذمہ افعال ادا کرتی ہے۔   ان میں سے اگلی کڑی  کی وہ مخلوق ہے  جس میں نر و  مادہ اپنا مادینہ  جزو  میں  نہیں پا یا جاتا۔
عورت اور مردکے جنسی تعلقات میں یہ مدعا اس شدت سے  شامل ہے کہ مباشرت کا حقیقی  یا تناسلی  مدعا ہو گیا ہے۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان دو اجزاء سے مرکب ہے ۔  جس میں سے ایک حیوانی اور دوجا انسانی ہے جس کے لئے  روحانی  کا لفظ  بھی لکھا گیا  ۔ جنسی مجامعت  کے دو مدعا جن کا ذکر اس سے قبل آیا ہے  ان میں دو اجزاء سے متعلق ہیں۔  حیوانی  جس کو بی ہیمی بھی لکھا جاتا  ہے، ان ہی میں دو چیزوں کا مرکب ہے۔

     جنسی تعلیم ایک مکمل مضمون

                               1۔حواس خمسہ
                       ( سننا، سونگھنا، چکھنا دیکھنا اور چھونا)
ان سے کے ذریعے حیوان اپنے آپ کو دشمنوں ہا ایزا دہندہ اشیا ء سے بچاتا  ہے ۔ اور یہی اس کو غذا کے حصول میں معاون  ہوتےہیں۔ یہ حواس خمسہ کا حقیقی  طبعی ( بائیو لوجیکل  ) مدعا ہے۔
انسان نے اپنی ارتقائی مناز ل سے ترقی  کر کے مزید و سائل کا حصول ممکن بنالیا اور بقا انسان  بقائے نوح کے لئے  حواس خمسہ کے لئے اس قدر محتا ج نہیں رہا  جتنا کہ قرون اولی میں تھا۔ 
                      2۔شہوت نفسانی 
               (  کھانا کھانا، پانی پینا، اور استفراغ) 
 ( ان کے فضلات سے پاک ہو ، قے ، دست، بول و براز کا خروج  )
حرکت و سکون تناسل ، شہوت  نفسانی سے بقاء شخص اور بقاء نوح مطلوب ہے ۔ یہ شہوات  نفسانی  کے فطری  یا ھقیقی  مدعا  ہے۔ جس طرح حیوان  بلکہ انسانی  بہی می وسائل  کے ساتھ ساتھ ایک روحانی  جز پیدا کرا لیا جا تا  ہے۔ جس کو ا س نے حظ ، نفس،لذت اور سرور کے نام دئیے ہیں۔
جیسے کے کان کے راستے حیوان  کے آواز سنتا ہے، انسان  اسی راستے سے میٹھے سروں پر مشتمل موسیقی  سے لطف  اندو ز ہوتا ہے۔ اور نغمات سے حظ حا صل کرتا ہے ۔ بو سونگ کر حیوان دشمن  سے بھا  گ جاتا ہے۔ یا شکار  کا پیچھا کرت اہے مگر حضرت انسان اسی حس سے  عطریات و خشبوا ت سےلے کر  کھانو ں تک کی خوشبو سے سرور اور فرحت حاصل کرتا ہے ۔
حیوان کے لئے ذائقہ حس کی تعلق سے  زندہ رہنے کے لئے حصول رزق اور اس کی نگل لینے  تک محدود  ہے جبکہ آدمی اسی حس کے ذریعے  مرچ، مصالحہ اور خشبووئیں  ا اور مختلف قسم کے رنگ شامل کر کے مختلف قسم کے رنگ برنگے کھانوں  سے لطف  اندوز ذائقے اور زے بناء دئیے ہیں ۔اور مزید بناتے چلےجا رہے ہیں ۔ کہ پانی بھی اب تو ایک با تکل سی چیز بن  کر رہ گئی  ہے۔اور پیاس بجھانے سے زیادہ ا اس کی حیثیت ایک  انٹرٹیمنٹ آرگن بن کر رہ گئی ہے۔جو کہ نفاست اور ذائقے کامرتکب بن گئ ہے۔
     جنسی تعلیم ایک مکمل مضمون
غرض یہ کہ حواس خمسہ اور شہوات نفسانی کے ساتھ تلذذ اور سرور کو حضرت انسان نے ا س حد تک  منسلک کر لیا   ہے کہ اب س کو روحانی تسکین کے لئے فرحت  اور لذت کو جمع کرنا  پڑتا ہے ۔
مجا معت جنسی کی خواہش حیوان میں فقط ا یاک عارضی اور مقامی خواہش ہو تی  ہے۔ مقامی خواہش  پیدا ہو راعضائے تناسل میں  مقامی انتشار پیدا کر دیتی ہے۔  اور مادہ مناویہ کے اخراج کے بعد  کواہشات سکون  حاص ل کر  لیتی ہیں اس فعل کا سارے جسم یا قوی پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ آدمی کو خوشنما  شکلوں اور سورتوں کو دیکھنے مدھر اور خوبصورت آواز سننے ، طنعی  اور ظرافت کی باتیں سننے اور کرنے سے درایئے مھبر ہلکورے لینے  لگتا ہے۔ اعصاب تلا طم (جوش) کاشکار  ہوتے ہیں۔  اس کی موج  در موج اطلاع اعضائے رئیسہ  ( دل، دماغ ، جگر اور معدہ ) کو پہنچتی ہے۔اور یوں دماغ تما تر جس م کو  اس سرور میں دوب جانے کا حکم سادر کرتا ہے ۔ اور خون کی روانی  اعضائے تنا  سل کی روانی اعضائے تناسل جانب بڑھ  جاتی ہے۔  یوں توا اس کے مقامی خارجی تحریک  آلات تناسل انتشار کا شکارہو جاتے ہیں ۔ عصب ایک نازل چیز  ہے جبکہ اعصابی قوت  انسان  کے لئے قدرت کاملہ  کا بیش بہا عطیہ  ہے ۔ اعصابی قوت  کے صرف ہو جانے  بعد  اس کی تلافی کے  لئے ایک  بڑے عرصے کی ضرور ت ہے ۔۔ اسی طرح ہر جنسی جوڑے  کی ضروریات  ایک جیسی نہیں ہوتیں  بلکہ جنسی ضروریا ت کا دارومدار  موقع، احساسات ، ماحول،  اور جزبات پر مشتمل ہوتا ہے۔  جو کہ ہر کسی کے ایک جیسے نہیں ہوتے  ۔ اسی طرح ایک مجامعت جنسی میں کثرت کی جائے  تو ترمیم  کے لئے کافی وقت نہ ملنے کی  بناء پر اعصابی  قوت کا ذخیرہ  خرچ ہوجانے کی وجہ  سے اعصاب میں ضعف  پیدا ہو جاتا ہے۔  اس ضعف کے پیدا ہونے  میں کا فی وقت  اور فاصلہ ہوتاہے۔  اور یہ بتدریج کمزوری  سے شروع ہو کر اعضائے رئیسہ  کی کمزوروی  سے سفر کرتے ہوئے  اعضائے تناسل کی کمزوری پر آ کر ختم ہو جاتا ہے ۔ اس ضعف ثلاثہ  کا مجموعی نام عنانت،  نامردی،  اور ضعف باہ رکھا گیا  ہے۔ جس کا آغاز اعصابی نظام کی کمزوری  سے ہوتا ہے۔
جس اعصابی نظام کا اس  سےپہلے ذکر  ہوا  ہے وہ مردو زن کے جنسی میل جول سے پیدا ہوتا  ہے۔ وہی طوفان ، غیر فطری، ( مصنوعی ) طریقوں  جلق، اغلام  ، ہم جنس، پرستی وغیرہ سے کبھی جنم  لیتاہے مگر اس کے  پیدا کرنے میں تصور  اور خیال  کے ذریعے  سے اعصاب پر تشدد کر کے اور غیر فطری  دباو  کے تحت ایک جھوٹی ( کازب ) کیفیت پیدا کر لی جاتی ہے۔ اس کیفیت کے پیدا کرنے میں جھوٹ کی بناء  پر اعصابی قوت  زیادہ صرف ہوتی ہے۔ اور اس کے شکار شدید ضعف باہ  کا شکار  ہوتے ہیں ۔ اس میں چونکہ عالین کو ان بد افعال  پر ضمیر ملامت  کرتا  رہتا ہے  اسکی وجہ  سے لوگ ذہنی سکون کھو بیٹھے ہیں لیکن چونکہ یہ لوگ گناہ لذت کے عادی ہوتے چلے  جاتے  ہیں ۔ چنا نچہ جونہی تنہائی پاتے ہیں  فوری ان امور خبیثہ میں مسروف ہو جاتے ہیں ۔ ان کا شکار ذیادہ تر  گرجاوں کے پا دری  مدارس کے ملائ ٹمپل کے خدمت گزار  اور مندروں کے  پجاری  اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ وہ افراد ہوتے ہیں  جو کہ گھروں اور گھر والوں سے دور ہو کر اکیلے ہوجاتے ہیں ۔ اور اس اکیلے پن کو دور کرنے  کے لئے غیر فطری زندگی کا آغاز  کرتے ہیں ۔  جس کے سائے تمام عمر ان کا  پیچھا  کرتے رہتے ہیں ۔ چونکہ تمام لوگ ان  جیسے حا لات  کا شکار ہوتےہیں ۔ تو اپنےا ندر کے جسمانی تقاضے  پورا کر کے  مجبور ہوتے ہوئے   ان مکروہ افعال،(  جلق، اغلام بازی ) کا شکار آسانی  سے ہو جا تے ہیں ۔ اور یہ لوگ حسین  سے حسین عورت کی جگہ  ایک لڑکے خو اہ جو بد شکل ہو  اپنی ہوس کے منتخب کرتے ہیں ۔ اور ان لوگوں کی بیویاں (  اگر شادی کی نوبت آجائے تو )  ان سے ہمیشہ  شاکی رہتے ہیں۔ اب جو لڑکے لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے ہوسٹل  لائف  نازل  ہوئی  ہے اس میں یہی  عوامل ہم جنس  پرستی (  لڑکیوں کی بھی  ) اور مخالف جنس  سے ناجائز تعلقات  کا باب زیادہ کھلتا جارہا ہے۔
                       ضعف باہ کی علامات
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اعصاب نہایت  نازک  چیز  ہیں ، اس وجہ  ضعف  باہ کا پہلا ان پر ہی اثر ہو تا ہے ۔ تما م بدن  میں کاہلی اورسستی غالب آ جاتی ہے۔ کام کو دل نہیں چاہتا۔ ہاتھ پیر میں کپکپاہٹ ہو جاتی ہے۔ دماغ کمزور ہوجاتا ہے اور اس میں در عمل میں قوت ارادہ تحلیل ہو جاتی ہے ۔ کوئی کام لگاتار کرنے میں من نہیں لگتا ۔ دم میں ایک طرف خوف اور دہشت کا بسیرا رہتا ہے تو دوسری طرف چکراتا ہے ، حافظہ ختم ہو کر نسیان  طاری ہوجاتا ہے ۔ اگر نیند تو خوفناک اور وحشت طاری کرنے والے خیالات  اور خواب آنے لگتے ہیں ۔ دماغی کام بالکل نہیں کر سکات ۔ دل دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔ نبض تیز اور بی ہو جاتی ہے۔ دل کی آوازیں سینہ سے کمزور سنائی دیتی ہیں۔ سانس پھول جاتاہے  چہرے زردی پر کھنڈ جاتی ہے۔ شرم و ندامت سے مریض ہمیشہ نطرین چرا کر یا نظر نیچی کر کے بات کرتا ہے ۔ بصارت  ضعیف ہو جاتی ہے جبکہ دونوں آنکھوں  کی پتلیاں  پیلی ہوتی ہیں ۔ ہاضمی کمزرو ہو کر سو ء ہضم اور قبض کی شکایت ہوجایا کرتی ہے۔ دھیرے دھیرے اعصاب کی حس اتنی کمزور ہو جاتی ہے ۔ کہ ہلکی سی خراش ، کپڑوں کی رگڑ ، عشقیہ مضامیں کے پڑھنے یا سننے یا صرف  معشوق کا تصور ہیدا ہو  کر اعصاب ہلکے سے  جوش کھا کر خفیف  تناسلی  انتشار ہوتا ہے اور فورا انزال  ہو جاتا ہے ۔ اس کیفییت کو  جریان کہتے ہیں ۔   اگر اکثر جماع میں   تکرار ہوتا رہے  تو دماغ کمزور ہو کر صرع تشخج یا دیوانگی  تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ احتلام  کےلفظی معنی خواب میں انزال ہو جانا ہے۔ یہ بات یاد کر لیں  کہ احتلام کا وقوعہ ضعف باہ کی  بناء پر نہیں ہوتا  بلکہ کیفیت  صحت کی حالت میں بھی درج ذیل حالتوں سے عارض ہوجاتاہے ۔
الف: اوعیہ منویہ سے پر ہو کر اوور فلو ہو جاتاہے ۔ ( اوعیہ منویہ محرو طی شکل کی دو خار دار غشائی تھیلیاں ہیں جن میں مادہ سٹور ہوتا ہے)۔
ب: معدہ  کے ضرورت سے زیادہ پر ہو کر سوء ہضم ہو جانے سے
ج:مثانہ پیشاپ سے بھر جائے ۔
د: پیشاپ تیزابی مادہ سے پر ہو جائے۔
س: تیز مصالحہ جات اور سرخ مرچوں کا زیادہ استعمال۔
ع: قبض کا تسلسل ہو۔
ط: جنسی خواب ( بالخصوص مبا شرت کرتے  دیکھنا  ) کی بناء پر۔
ان وجوہات سے مثآنہ کے منہ پر خراش پیدا ہو کر منی کا اخراج ہو جاتا ہے  مگر احتلام  میں اعتصاب عمومی حالت خواب میں ہوتے ہیں ااس وجہ سے جنسی طوفان ان کا رخ نہیں کر تا۔ جس کی وجہ سے احتلام کی وجہ سے ضعف باہ پیدا  نہیں ہوتا۔اگر تندرست توانا مجرد افراد کو ایک ماہ میں دو بار تک احتلا م ہو جاتا ہے ۔ اس کو بیماری نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس سے قبل ہم  بتا چکے ہیں  کہ عورت مرد  کے تعلقات  جنسی کے دو مدعا  ہیں حصول اولاد  اور لذت حصول۔
بہت سے افراد  اس بات کا واویلا کرتے رہتےہیں کہ جماع کا مدعا حصول اولاد کے علاوہ کچھ نہیں  ہے ۔ ان میں اکثر متامل  لوگ بھی ہیں ۔ ہم ان  سے سوال کرتے ہیں  کہ انہوں نے مجامعت کا فعل کتنی بار حصول اولاد کی غرض سے کیا اور کتنی بار حصول لذت کے لئے؟
 دوسرا باب:                مجامعت جنسی کی ماہیت
بچے کا وجود دو اجزاء کے ملنے سے بنتا ہے ۔ مادہ کا بیضہ  ، نر کا حونیات منویہ سے مخلوط ہوتا ہے۔ ان دونوں کے اخلاط کے ماحصل کو نطفہ  کہتے ہیں ۔ اسی نطفہ میں بتدریج تبدیلیاں واقع ہو کر جنبین اور اس سے بچے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔  جس طرز ہر بچہ کی خلقت  اور ساخت کے اجزائے ترکیبی  دو ہیں  اسی طرح فعل جماع  جس سے  نئی زندگی  کی بنیاد رکھن  کی کوشش کی جاتی ہے  وہ بھی دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ جز اول کو مجامعت جنسی کی اشتہا  ( شہوت باہ ) جبکہ جز دوم کے لئے تناسل یا حصول اولاد ( بقائے نوع ) کی  اصطلاح استعمال ہوتی ہے ۔
فعل جماع کے ان دونوں افعال کی انجام دہی کے لئے الگ الگ دو عدد اعضاء بنائے گے ہیں ۔ نر قضیب آلہ شہوت  ہے جبکہ خصیتین آلات تناسل ہیں ۔ عوام  الناس اور جمہور مجامعت کو مفرد فعل  تصور  کرتے ہیں  اسی وجہ سے خصیتین اور قضیب ان کے جوانب کو مفرد جنسی فعل تصور کرتے ہیں اسی وجہ سے خصیتین اور قضیب اور ان کے جوناب کو اعجائے تناسل کا مشترک نام غلط العام ہو چکا ہے اور عرصہ دراز ےس رائج بھی ہے۔
آپ غور سے ملاحظہ کریں تو مجامعت  جنسی کے دو افعال  کو سرا نجاب  دینے   کے لئے نہ صرف دو الگ الگ اجزاء بنائے گئے ہیں بلکہ ان دو اجذائ کا فعل نر و مادہ کے نادر تخصیص سے الگ الگ کیا گیا ہے ۔ ھصول لذت شہوت ایک بہیمی خصلت  ہے ۔ جب اس پر گور کرت ہیں تو نر اور مادہ  میں خصائل یکساں نہین ہوتے ۔ نر کے اندر یہ خصائل  درجہ کمال میں اظہار یکجہتی  کرتے ہیں ۔ اس کی مثالیں غصہ،  غضب ، دلیری ، خونخواری، قوت ، شہوت ، وغیرہ ہیں ، یہ خصلتیں نر کے اندر اپنے کمال تک چھپی ہوتی ہی اور شہوت کا غلبہ تو نر کے اندر اس شدت دے چھپا  ہو تاہے کہ اس کی تکمیل کا نہ تو وقت  دیکھتا  ہئ نہ موقع اور نہ ہی اس کی حدیں مقرر کر سکتا ہے۔اور کسی نہ کسی طرح اس کی تسکین کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
 اس کے برعکس مادہ پر جب شہوت کا غلبہ تو وہ نر کو اپنے نزدین لا نے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے لئے ترغیبات دیتی ہیں لیکن یہ سب  ایک حد تک  ہوتی ہیں ۔ ایک یا دو ابر فعل (  مجامعت  ) کے بعد یا ستقرار  حمل ہو جا نے  پر شہوت کی حدت  فرو ہوجاتی ہے اور اس کو نر کی مزید خواہش نہیں رہتی۔ اس کے برعکس اگر دوسری یا تیسری بار مادہ یکتٓے بع دیگرے  نر کو اپنے نزدیک آنے دے تو نر فورا اس پر سواری کرنا شروع  کردیتا  ہے ۔  اس حلقے میں جانوروں میں جانوروں میں بکرے ، بھیڑ، سور  اور ہرن کے گلوں میں دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک ہی نربیس سے تیس مادہ سے مجامع کرتا ہے، اس میں مادہ کے گرم اور تیار ہونے کے مخصوص موسم ہوتے ہین اور مادہ شہوت کا غلبہ انہی اوقا ت میں ہوتاہے  اور ان ہی موسموں میں وہ نر کو اپنے  قریب آنے دیتی ہے۔ جب  اس کے  جسم میں تناسل  یعنی  استقرار حمل کی قابلیت یا خلبہ پا چکتی ہے اس کے پہلے یا بعد میں نہ تو اس کو مجامعت جنسی کی خواہش پیداہوتی ہے اور نہ ہئ وہ نر کو قبول کرتیہیں جبکہ نر موسم  اور وقت کی قید سے آزار ہر وقت جماع کے لئے تیاررہت اہے  اور صرف مادہ کا انکار ہر نر جماع سے باز رکھ سکتا ہے۔
ان مشاہدات کی بناء پر یہ کہا جاسکتاہے کہ نر کا  مقدم اور اغلب حصہ جماع کے  فعل میں شہوت  رانی  ہے اور مادہ  اس فعل میں تناسل کا نما ئندہ ہے ۔ واحد الجفت ( اکیل جوڑا ) حیوانات میں امدہ کا انکار نر کی کافی سے زیادہ کیفیت سے زیدہ حفاظت کرتا ہے۔ اس  عمل سے نر کی صحت اور قوت بدنی برقرار رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کثیر الجفت  حیوانات میں دیکھا گیا ہے  کہ ایک زبردست  اور مضبوط  نر اجارہ ( ٹھیکہ ، مناپلی ) لے کر سارے گلہ کا مالک بن جاتاہے  اور وہ کسی دوسرے نر کو مادہ کے قریب نہیں آنے دیتا۔ اس سے دھیرے دھیرے وہ  نر کثرت جماع سے کمزور  ہوتا چلا جاتاہے۔ اور آخرکار کوئی  دوسرا نوجوان نر جو کہ  زبردست ہوتا ہے۔ اور پر اچھا وقت ہوتا ہے اور وہ آکر اس کو مار بھگا دیتا ہے یا جان سے مار دیت  ہے اور   وہ آئندہ  کے لئے  پورے گلے  یا ٹھیکے  دار  بن جاتا  ہے۔ اور یوں یہ سرکل چلتا رہتا ہے ۔ یہ عمل اکثر جنگلی مرغ ، ہرن، اور بھینسے  کے گلوں  میں دیکھنے میں آتا ہے ۔ یہ مشاہدہ یہ بات ثابت کرتا ہے  کہ جماع  کی قوت  کا سرمایہ  نر کے  اندر  محدود  ہوتا ہ ے  اور جوں ہی یہ خزانہ خرچ  جاتاہے ، بدن ، کمزوری کا شکار ہوکر جماع، کی  طاقت ساقط کر بیٹھتا ہے ، اور نر اپنے فرائض جماعیہ ادا کرنے سے عاجز ہو جاتا ہے۔ نر جماع کے فعل میں فاعل کا کام دیتاہے  اور مادہ مفعول  کا  کام کرتی ہے ۔ فاعل کے لئے حرکت اور بے قراری لازمی ہوتی ہے اور مفعول کے لئے سکون ضروری  ہوتا ہے۔
حیوانات کے جماں میں دیکھا جاتا ہے  کہ جو حرکاتا فعل  جماع سر ا نجام  دیتے ہیں  اس کے لئے ضروری ہوتاہے  کہ وہ نر کی طرف سے ہوتی ہیں  جبکہ وہ اس  عمل کے  دوران  سکون سے کھڑے یا بیٹھی  رہتی ہیں  اور حصول لذت کا اظہار نر کی حرکات سے چابت ہوتا ہے  اس کے برعکد  مادہ کو اگر حصول کے لئے لذت بے قراری دیکھی  جائے تو وہ فقط اس حد تک ہوتی ہے جو نر کے قبول کرنے سے استقرار  حمل کے لئے ضروری ہوتا ہے ۔ اس میں یہ بات بالخصوص دیکھنے میں آتی ہے کہ نر حیوان خواہ کتنا ہی زبردستی اور کونخوار ہو مادہ کے ساتھ جبرا جماع نہیں کر سکتے   ، اس سلسلے میں یہ بھی دیکھنے میں آیا  ہے کہ بعض حیوانا ناچ  کرا ور بال  پر پھیلا کر میٹھی  آوازیں پیدا کر کے مادہ جماع کی جانب راغب کرنے کی کوششیں کرتے ہں جس سے وقت مادہ  میں جماع کی خواہش نمودارا ہوتی ہے۔ تو اس کے اعضائے تنسال میں کچھ تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ یہ تبدیلیاں آدراصل  استقرار حمل کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ اس میں رحم اور مہیل ( یہ وہ غشائی حمدار نالی جو فرج سے شروع ہوکر رحم کی گردن کے چوگر د ختم ہو تی ہے )۔ کے اندر امتلاء ( رگوں میں خون کا بھر جانا  ) واقع ہوکر ان میں سے ایک قسم کی رطوبت نکلتی ہے اس رطوبت کی بو کو نر محسوس کرتا ہے اور اس کے سونگھتے ہی وہ یہ محسوس کر لیتا ہے کہ مادہ جماع کے لئے مستعد ہو رہی ہے۔ بعض  حیوانوں میں عملک مادہ کے بدن کو مادہ کے اعضائے  تناسیلیہ کو چاٹ کر قوت ذائقہ سے یہ معلوم  کر لیتا ہے۔ کہ مادہ در حقیقت جماع کے لئے مادہ ہے۔ یہ مشاہدہ اس بات کی دلیل  ہے کہ قوت  شامہ  اور قوت لذت کا جذبہ شہوت کے ساتھ کہرا تعلق ہے اس تعلق کو علم  الجبین  سے واضح کیا جاسکتاہے۔
یاد رہے کہ جنبین کے بننے سے پیشتر نطفہ ایک گول مول گوشت کا ٹکرا ہوتاہے  جس میں اعضا ء کی تشکیل نہین ہوچکی ہو ہوتی اور ناک  کان منہ وغیرہ کا امتیاز بھی نہین ہوتا۔ یہ تھیلے کی شکل کا گوشت کا ٹکڑا ہوتا ہے جس کے غلاف کے اندر ایک سیدھا گاڑھا سیال (  لیکوئنڈ ) مادہ بھراہوتا ہے ۔ جلدی غلاف کی تین تہی ہوتی ہیں ۔ سب سے باہر والی تہہ کا نام علم  التشکیل  کی اصطلاح میں ایکٹرو ڈرم ہے۔ درمیان تہہ کو میسو ڈرم کہا جاتاہے۔  اب آپ تصور کریں  کہ یہ تھیلا کھلے میدان میں رکھ دیا گیا جہاں اس کو کھلی دھوپ لگتی ہے۔ ہوا اس کو چھو کر گزرتی ہے ہر قسم کی آوازیں کے تصادم  اس تک پہنچتےہیں ۔ ہوا میں موجود مٹی کے ذرات اڑ اڑ کر اس تھلے پر گرتے رہتے ہیں۔ تو کیا اس ساری صورتحال سے تھیال ان خارجی عوامل سے متاثر نہی ہو گا؟ ہوگا ور ان تمام آسیبوں سے متاثر ہو کر جلد اندر حس  لامسہ  جاگتی ہے۔ رفتہ رفتہ جلد کا وہ حصہ جہاں سور ج کی روشنی کا اثر  خاص طور پر ہوتا ہے روشنی کو محسوس  کرنے پر مخصوص ہو جات ہے ۔ اس سے وہ مقام  پر حس بصارت بن جانے سے آلہ بصارت بن جائے گا۔ علی ھزا القیاس آوازوں کے تصادم سے متاثر ھونے والی جلد والے حصہ میں قوت سامعہ ہو جاتی ہے اور اس مقام پر کان بن جاتا ہے۔


 Skype ID  #   ummulshifaherbal
Hakeem Muhammad Fayyaz
  For Order  #   +92 0300 8454453
 Help Line 24/7   +92 0334 7405881 this Number available at Whtsapp,Viber 
open Link 
http://ummulshifa.com/